حالات حاضرہ

پاکستان میں انٹرنیٹ پالیسیز اور ان کے اثرات

پاکستان میں انٹرنیٹ کے حالیہ مسائل اور حکومت کی پالیسیوں پر ایک نظر ڈالنے سے کئی اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ انٹرنیٹ تک رسائی اور اس کے ساتھ منسلک پابندیاں، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں اور ان پالیسیوں کی منطق پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔

حکومت کی جانب سے کچھ ویب سائٹس، جیسے کہ ٹوئٹر، کو بلاک کرنا ایک ایسا عمل ہے جو صارفین کو وی پی این استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وی پی این ایک ایسا ذریعہ ہے جو صارف کو مزید آزادی دیتا ہے اور حکومت کی نگرانی کو محدود کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت خود اپنے اقدامات سے صارفین کو اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے پر مجبور کر رہی ہے، جو کہ ایک غیر منطقی اور نقصان دہ حکمت عملی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ٹوئٹر جیسا پلیٹ فارم بلاک کر رکھا ہے، جو زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ استعمال کرتا ہے، جبکہ فیس بک، جہاں زیادہ تر غیر سنجیدہ اور غیر معیاری مواد پایا جاتا ہے، بلا تعطل چل رہا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں ترجیحات اور ان کے نفاذ میں تضاد پایا جاتا ہے۔

مزید برآں، حکومت کی جانب سے کچھ وی پی این کمپنیوں کو لائسنس دینے کا ارادہ اور انہیں مخصوص مانیٹرنگ کی اجازت دینا نہایت عجیب فیصلہ ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اپنے نیٹ ورک پر ہی صارفین کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے، وہ یہ کام پرائیویٹ اداروں کے حوالے کر رہی ہے، جو کہ قومی سلامتی اور عوامی اعتماد کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ایک سادہ مثال اس صورتحال کو مزید واضح کر سکتی ہے۔ اگر ایک عمارت کے مرکزی دروازے کو بند کر دیا جائے اور لوگوں کو نقاب پہن کر داخل ہونے پر مجبور کیا جائے، تو بہتر حل یہ ہوگا کہ اس پابندی کو ختم کر دیا جائے تاکہ لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے داخل ہو سکیں اور ان کی حرکات پر نظر رکھی جا سکے۔ لیکن یہاں حکومت نے الٹا راستہ اپنایا ہے اور عمارت کے باہر نقاب بیچنے والوں کو بٹھا دیا ہے، جنہیں ٹریکنگ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

یہ پالیسیز نہ صرف عوام کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں بلکہ قومی وسائل کے غیر ضروری استعمال کا سبب بھی بنتی ہیں۔ اگر ٹوئٹر کو بلاک کرنے کی بجائے کھلا چھوڑ دیا جائے تو وی پی این کے استعمال کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی اور حکومت زیادہ موثر طریقے سے صارفین کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور ایسی حکمت عملی اپنائے جو نہ صرف عوام کی ضروریات کے مطابق ہو بلکہ قومی مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔ انٹرنیٹ کے معاملے میں شفافیت اور منطقی فیصلے ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button