یہ ایک ایوارڈ وننگ شارٹ فلم ہے جسکا نام ہے "چارہ”
کہانی کی شروعات میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک کتا کہیں کھڑا ہے اسے کھانے کو کچھ پھینکا جاتا ہے وہ اسے کھاتا ہے اور اسکے بعد وہ آگے بڑھتا ہے کہ مزید کچھ اور بھی کھانے کو ملے گا لیکن اسکے بعد آواز آتی ہے زور سے کتے کے سر میں ڈنڈا لگنے کی اور پھر کتے کی کراہنے کی۔
اسکے بعد منظر بدلتا ہے اور ایک گھر میں ایک میاں بیوی کا جوڑا سشیل اور سواتی صبح اٹھنے کے بعد ناشتے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں ۔ ناشتے میں گوشت تو نہیں ہوتا لیکن وہ سشیل گوشت کا کچھ اتنا ہی شوقین ہوتا ہے کہ رات کے گوشت کا سالن فریزر سے نکال کر خود ہی گرم کرتا ہے اور اسی سے ہی ناشتا کرتا ہے۔
ناشتے کی میز پر سواتی کہتی ہے کہ وہ دن بھر بور ہوتی ہے کیوں نہ وہ ٹیوشن پڑھانا شروع کردے، جواب میں سشیل اسے کہتا ہے کہ نہیں ایسے وقت میں تمہارے لیئے کام کرنا ٹھیک نہیں، دراصل سواتی پیٹ سے ہوتی ہے۔ وہ پھر دوبارہ اصرار کرتی ہے لیکن سشیل منع کر دیتا ہے۔
اسکے بعد سشیل آفس کو نکل پڑتا ہے۔
سشیل ایک انشورنس کمپنی میں کام کرتا ہے۔
آفس میں وہ اپنے کسی کلائنٹ سے بات کرتا ہے، وہ کلائنٹ سے انشورنس کے رینوئل کے لیئے اصرار کرتا ہے لیکن کلائنٹ اس سے کہتا ہے کہ آج کل تو آن لائن بھی کام ہوجاتے ہیں لیکن سشیل اسے بتاتا ہے کہ آن لائن کے چکر میں نہ پڑو۔
اور پھر سشیل اپنے کلائنٹ سے اسکا ایڈریس معلوم کرنے لگتا ہے۔
دوپہر میں سشیل جب کھانے کا ٹفن کھولتا ہے تو اسے دال نظر آتی ہے جسے دیکھ کر اس کا موڈ بدل جاتا ہے، اسی دوران اسکا رابطہ اپنی بیوی سے ہوتا ہے بیوی اسے کھانے کا پوچھتی ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اس نے کھا لیا ہے، وہ اسے بتاتی ہے کہ شام کو اس نے ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لیا ہے اسکے لیئے وہ تیار رہے، وہ اسے کہتا ہے ہم سٹی کی سائیڈ سے ہسپتال چلیں گے اور اس بہانے گول گپے اور بریانی بھی کھا لیں گے۔
کال رکھتے ہی سشیل کوئی گوشت والا آئیٹم منگواتا ہے اور اپنا پیٹ بھرتا ہے۔
شام کو وہ گھر واپس آتا ہے اور سواتی کو بائیک پر ہسپتال لے جاتا ہے، اس دوران وہ جوس وغیرہ بھی پیتے ہیں اور ماحول کو انجوائے کرتے ہیں، ہسپتال میں سواتی کو ایک انجیکشن لگتا ہے اور نرس بتاتی کہ سب کچھ ٹھیک ہے بس تھوڑی سی کمزوری ہے۔
ہسپتال سے نکلتے ہی وہ دونوں بازار کا رخ کرتے ہیں جہاں سواتی نے کچھ خریداری کرنی ہوتی ہے، یہاں پر وہ ایک ساتھ گول گپے کھاتے ہیں، کچھ دیر میں سشیل اسے کہتا ہے کہ مجھے زرا ایک کام یاد آگیا ہے میں کچھ ہی دیر میں آفس سے ہوکر کر آیا تم جب تک شاپنگ کر لو۔
وہ چلا جاتا ہے۔ اس دوران سواتی مختلف دوکانوں پر جاتی ہے یہاں تک کہ سواتی فارغ ہوکر سشیل کو کال کرتی ہے لیکن اسکا رابطہ نہیں ہو پاتا، بہت دیر ہوجاتی ہے اور دوکانیں آہستہ آہستہ بند ہونے لگتی ہیں، سواتی پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر گھومتی رہتی ہے، کچھ دیر بعد سشیل واپس بازار پہنچتا ہے اور آتے ہی سواتی کا نمبر ملاتا ہے لیکن نمبر نہیں ملتا وہ سوچتا ہے کہ نیٹورک کا مسئلہ ہوگا، اسے بھوک لگی ہوتی ہے اسلیئے وہ قریبی ہوٹل میں بریانی کھانے چلا جاتا ہے، کھانے کے دوران اچانک کوئی چیز اسکے گلے میں پھنستی ہے وہ اسے منہ سے نکالتا ہے ہاتھ میں آتے ہی اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو سواتی کا ناخن ہے، اپنی بیوی کے ہی ناخن ہونے کا اسے پکا یقین اس لیئے ہوتا ہے کیوں کہ اسی شام ہی سواتی کو انجیکشن لگوانے کے دوران اسکے ہاتھ میں اسکے ناخن لگے تھے جن پر بنا ڈیزائن اسے یاد تھا، وہ کھانا وہیں چھوڑ کر پریشانی کے عالم میں اپنی بیوی کی تلاش کرتا ہے ایک دفعہ پھر کال ملانے کی کوشش کرتا ہے کہ لیکن نمبر بند ہی ملتا ہے، اچھی خاصی تلاش کے بعد بھی اسے اپنی بیوی کا پتہ نہیں ملتا۔
پھر یہ دکھایا جاتا ہے کہ اصل میں اسکی بیوی کے ساتھ ہوا کیا تھا، اسکے شوہر کے جانے کے بعد جب وہ آنے میں دیر کرتا ہے تو اسکی بیوی بازار میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی تو کچھ لوگوں کی اس پر نظر تھی اسے اکیلا جان کر انہوں نے اس کے منہ کپڑا رکھا اور اسے بےہوش کیا اور پھر کسی خفیہ جگہ اسے لے جا کر بے ہوشی کی ہی حالت میں اسے پھانسی پر لٹکایا اور پھر اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ اس کا گوشت بنایا۔
اور غالباً اسی کے گوشت میں پکی بریانی اسکا شوہر کھا رہا تھا۔